۸ آذر ۱۴۰۳ |۲۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 28, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛اکیسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

اکیسویں پارے کا مختصر جائزه

33۔سوره اَحزاب کا مختصر جائزه

سوره اَحزاب قرآن کی 33ویں سوره ہے جو قرآن کے 21ویں اور 22ویں پارے میں واقع ہے یہ سوره مدنی سوتوں کا حصہ ہے اس سورت کا عمدہ حصہ جنگ احزاب یا جنگ خندق کے متعلق ہونے کی وجہ سے اس سورت کا نام "سوره احزاب" رکھا گیا ہے سوره احزاب میں کافروں کی کی پیروی نہ کرنے، خدا کی اطاعت کرنے، دوران جاہلیت کے بعض قوانین، وظائف ازواج پیغمبر، پیغمبر اکرم1کا زینب بنت جحش سے نکاح کی داستان اور حجاب کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔

سوره احزاب کی بہت سی آیتیں مشہور ہیں من جملہ ان میں وہ آیت ہے جس میں ازواج پیغمبر1 کو اُمَّہات المؤمنین یا پیغمبر اکرم1 کو نمونہ عمل قرار دیا گیا ہے اسی طرح آیت تطہیر، آیت خاتمیت، آیت صلوات اور آیت امانت اس سورے کی مشہور آیات میں سے ہیں۔

مضامین

سوره احزاب میں گوناگون اعتقادی اور فقہی مسائل، داستانوں، عبرتوں خاص کر غزوہ احزاب یا جنگ خندق کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، تفسیر نمونہ کے مطابق اس سورت کے بعض موضوعات درج ذیل ہیں۔

خدا کی اطاعت اور کافروں کی پیروی سے ممانعت؛دور جاہلیت کے بعض قوانین مانند ظِہار اور لے پالک؛جنگ احزاب اور مسلمانوں کا معجزانہ فتح؛

وظائف ازواج پیغمبر؛پیغمبر اکرم1 کا زینب بنت جحش کے ساتھ ازدواج کی داستان؛حجاب اورمعاد۔

فضیلت اور خواص

کتاب مجمع البیان کی ایک حدیث کے مطابق اگر کوئی شخص سورہ احزاب کو اپنے اہل و عیال کے لئے تعلیم دے تو یہ شخص عذاب قبر سے محفوظ رہے گا[9]۔ امام صادقB سے نقل ہے کہ وہ لوگ جو اس سورت کی بہت زیادہ تلاوت کرتے ہیں قیامت کے دن پیغمبر اکرم1 اور آپ1کے ازواج مطہرات کے ہمراہ ہونگے[10]۔

اکیسویں پارے کےچیدہ نکات

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ ﴿٤٦﴾ سورة العنكبوت

جدالِ احسن میں ظالمین کا استثناء دليل ہے کہ جہاں شرافت اور نرمی میں مخالف کے غرور کا اندیشہ پیدا ہو جائے وہاں متکبیر کے ساتھ تکبر ہی عبادت ہوتا ہے اور نرمی کا برتاوؤاپنی کمزوری کی علامت بن جاتا ہے ۔

وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّـهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦٠﴾ سورة العنكبوت

اس روئے زمین پر کتنی مخلوقات ایسی پائی جاتی ہیں جو اپنا رزق فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اپنا بوجھ بھی خودنہیں اٹھا سکتی ہیں؛ دوسروں کا کیا ذکر ہے خود انسان ہی جب تک شکم مادر یاا آغوش مادر میں رہتا ہے تورزق کا بار اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی انتظام کر سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود پروردگار عالم اسے رزق عطا کرتا ہے اور کسی نہ کسی صورت سے اس تک پہنچا دیتا ہے، ایسی صورت میں اتنے واضح تجربہ کے بعد انسان دشمنوں سے مرعوب ہو جائے کہ وہ معاشی نا کہ بندی کر دیں گے یا تبلیغ دین ترک کر دے کہ معیشت خطرہ میں پڑ جائے گی یا احکام الہیہ بیان نہ کرے کہ بانیان مجلس دوبارہ نہ بلائیں گے تو یہ ایمان کی ایسی کمزوری ہے جو انسان کو جانوروں سے بدتر بنا دیتی ہے کہ جانور صبح سویرے صحرا کی طرف اس اعتماد کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ رزق ضرور فراہم کرے گا اور انسان رازق حقیقی کو چھوڑ کر بندروں کی خوشامد کرتا ہے اور انہیں کو رازق العبادتصور کر لیتا ہے ۔

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٢١﴾ سورة الروم

آیت کریمہ نے اسلام کے پورے فسلفہ ازدواج کو واضح کر دیا ہے کہ اولاً تو اس کی بنیاد سکون زندگی ہے ، اس لئے ہر ایک کا جوڑا اسی کی نوع سے قرار دیا گیا ہے ورنہ انسانی زندگی وحشت کا شکار ہو جاتی اور اس کا گھر وحشت کدہ بن جاتا ،دوسری طرف خدا نے دونوں کے درمیان مودّت اور رحمت کا سلسلہ قائم کر دیا ہے جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عقد میں کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جو مودّت و رحمت کے منافی ہو اور ظاہر ہے کہ اگر عقد کی بنیاد مال یا جمال پر ہو گی تو مال کے ختم ہو جائے اور جمال کے ڈھل جانے کے بعد مودّت کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس طرح فریقین کے اخلاق اور کردار میں نقص ہوگا تو رحمت کا ماحول قائم نہ رہ سکے گا، لہذا ضرورت ہے کہ عقد کی بنیا دعقیدہ اور ایمان کو بنایا جائے اور برتاؤبھی قانون اسلام کی روشنی میں کیا جائے تا کہ نہ مودّت میں فرق آ سکے اور نہ رحمت کا خاتمہ ہو سکے ۔

جنسی روابط اور اولاد پیدا کرنا ایک ثانوی مسئلہ ہے، بنیادی طور پر عورت اور مرد ایک دوسرے کی زندگی کی ضرورت ہیں اور انہیں ایسا جامع الشرائط ہونا چاہیے جو سکون ، مودّت اور رحمت کیلئے مناسب ہو اور نظام خانوادگی تباہ و برباد نہ ہونے پائے ۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾ سورة الروم

معاشیات کی دنیا میں سب سے بڑی مصیبت کا نام ہے سود، سود وہ جال ہے جس میں غریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، سود وہ فریب ہے جس سے قوموں کو کاہل بنایا جاتا ہے، سود وہ حربہ ہے جس سے قوموں کی صلاحیتوں کو ضائع اور برباد کیا جاتا ہے، اور وہ راستہ ہے جس سے قوموں کا استحصال کیا جاتا ہے

سود کے بارے میں ظاہری تصور یہ ہے کہ اس سے مال میں اضافہ ہو جاتا ہے حالانکہ بے برکت اضافہ کبھی اضافہ کہے جانے کے قابل نہیں ہوتا ہے،اضافہ زکوٰۃ کے ذریہ ہوتا ہے جس میں بظاہر مال ہاتھ سے نکل جاتا ہے لیکن واقعاً اس میں برکت ہو جاتی ہے ۔

برکت کا پہچاننا بھی ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے، شیطان اس نکتہ کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ہی نہیں دیتا ہے کہ زکوٰۃ وصدقات سے مال میں برکت پیدا ہو جاتی ہے ،ایک انسان حلال وحرام کو ایک کر کے یا بخل و کنجوسی سے کام لے کر ایک لاکھ روپیہ اکٹھا کر لیتا ہے اور اس کے بعد کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے طرز عمل اور بخل کی تعریف کرتا ہے کہ ہم نے یہ سرمآیت نہ جمع کیا ہوتا تو آج کیا ہوتا اور یہ بھول جاتا ہے کہ اگر اس نے اس طرح کا سرمآیت نہ جمع کیا ہوتا تو شاید خدا اس کے نکلنے کا انتظام بھی نہ کرتا اور شائد یہ بیماری ہی قریب نہ آتی لیکن انسان کو اس اسلامی فکر کی تو فیق کہاں حاصل ہوتی ہے؛ وہ تو بالکل بندهٔ دنیا ہو کر رہ گیا ہےاور اسی بندگی میں مست ومگن ہے ۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾ سورة لقمان

امیر المؤمنینB نے کس قدر بلیغ جملہ ارشاد فرمایا ہے جو مغرور اور متکبر افراد کے لیے تازیانۂ عبرت ہے آپ فرماتے ہیں کہ غرور سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں ہے اور تواضع سے زیادہ وسیع کوئی رشتہ نہیں۔

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿٩﴾ سورة السجدة

یہ روح حیات ہے جس نے ایک حقیر اور ذلیل قطرۂ نجس کی پیداوار کو اشرفیت کا لباس عطا کر دیا ہے ورنہ روح خداوندی سے علیحدگی اختیار کر لی جائے تو انسان ایک قطرهٔ نجس سے زیادہ کچھ نہیں ہے؛ اے کاش انسان اس کرم اور اس رابطہ کی قدرو قیمت کا اندازہ کرتا اور بہر صورت اس رابط کو برقرار رکھنا ۔

أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ﴿١٨﴾ سورة السجدة

مفسرین نے نقل کیا ہے کہ حضرت علیBاور ولید بن عتبہ کے درمیان کسی موضوع پر بحث ہوگئی ولید نے کہا کہ میری زبان آپ سے زیادہ فصیح ہے اور میرا نیزه آپ سے زیادہ تیز تر اور میری قوت دفاع آپ سے زیادہ مستحکم ہے تو آپ نے اس پُر غرور اندازِ بیان کے جواب میں فرمایا کہ’’اسکت یا فاسق ‘‘تو آیت کریمہ نازل ہوئی کہ مومن اور فاسق ایک جیسے نہیں ہو سکتے جس کا مقصد یہ ہے کہ مؤمن کی شان تواضع اور انکساری ہے اور اس کا کام غرور اور تعلیٰ نہیں ہے، یہ فاسقوں کا کاروبار ہے اور انہیں کو زیب دیتا ہے ۔

مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ ﴿٤﴾ سورة الأحزاب

دنیا کی تمام مکاریوں اور سیا سی چالوں کا واحد جواب یہ آیت کر یمہ ہے کہ اللہ نے کسی مرد یا عورت کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے ہیں کہ ایک سے مذہب اختیار کرے اور ایک سے مذہب کے خلاف سیاسی اور دنیا داری کے نظریات اپنائے، یا ایک دل سے ایک مذہب کو قبول کرے اور دوسرے دل سے دوسرے مذہب کو اختیار کر لے یا ایک دل سے دینداری کا کام انجام دے اور دوسرے دل سے دنیا داری کا کاروبار کرتا رہے ۔

قرآن کریم کا واضح فیصلہ ہے کہ انسان دو متضاد خیالات کا حامل نہیں ہوسکتا ہے، اسے ایک ہی راستہ اختیار کرنا ہوگا؛ ایک شخص نے امیر المؤمنینBسے عرض کی کہ میں آپ کو بھی دوست رکھتا ہوں اور معاویہ کو بھی تو آپ نے فرمایا کہ تو کانا ہے؛ یا بالکل اندھا ہو جایا مکمل طور سے بینائی اختیار کر لے اور پورے طور سے مجھ سے محبت کر کہ میری محبت جزوِ ایمان ہے ۔

محبت امام1 کا دعوی کرنے کے بعد احکام اسلام سے انحراف کرنے والے یا حق امام کے کھا جانے والے درحقیقت اسی کانے پن کا شکار ہیں اور انہیں مکمل بینائی نصیب نہیں ہوتی ہے ۔

وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ﴿٢٦﴾ سورة الأحزاب

اس مقام پر اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام 1نے یہودیوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے وہ ایک طرح کا غیر انسانی برتا ؤہے اور ایسی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے، لیکن اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ کہ یہ یہودیوں کی عہد شکنی کی سزا ہے کہ انہوں نے معاہدہ کر کے عین وقت پر دھوکہ دیا اور دھوکہ دینے والا رعایت کا حقدار نہیں ہوتا ہے ۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان لوگوں نے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام 1کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہوتا تو شائد اس طرح کا برتاؤ نہ کیا جاتا لیکن یہ ان کی شقاوت اور بدبختی تھی کہ انہوں نے پیغمبر اسلامؐ کے فیصلے کو برداشت نہیں کیا اور سعد بن معاذ کو حکم بنالیا تو ظاہر ہے کہ جو فیصلہ ہوگا وہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا اس کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہ ہوگی ۔

تیسری بات یہ ہے کہ سعد کا یہ فیصلہ توریت کی تعلیمات کے عین مطابق تھا جہاں ایسے افراد کیلئے اس سے بھی سخت سزا کا تذکرہ موجود ہے اور یہ صراحت ہے کہ سارے مخالفین کو تہ تیغ کر دیا جائے چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، بوڑھے ہوں یا بچے اور اس کے بعد بستی کو آگ لگا دی جائے یہ تو سعد کی شرافت نفس تھی کہ انہوں نے توریت کی سزا میں تخفیف کر دی جس کے بعد ایسی صورت میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔


[1] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۵۹.

[2] صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۹۔

[3] صدوق،امالی، ۱۳۵۸ش، ص۶۷۴

[4] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۶۸۔

[5] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸۔

[6] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۴۸۸۔

[7] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۰۸۔

[8] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۳۸۵۔

[9] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۲۴۔

[10] شیخ صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۰۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .